دنیا افغان خواتین کو طالبان کے رحم وکرم پرنہ چھوڑے۔ ملالہ

ملالہ یوسفزئی کا کہنا تھا کہ دنیا افغان خواتین کو طالبان کے رحم و کرم پر نہ چھوڑے تفصیلات کے مطابق نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی نے حالیہ تبدیلی افغانستان کے متعلق کہا ہے ماضی کی طرح طالبان خواتین کسی طور بھی قبول نہیں کریں گے اور خواتین کے لیے مشکلات پیدا کریں گے اس لیے دنیا کو چاہیے کہ افغان خواتین کوہمیشہ کی طرح اب طالبان کے رحم و کرم پر چھوڑنے کی بجائے ان خواتین کو ہر طرح سے تحفظ دے طالبان کے رحم و کرم پر چھوڑ نے کا مطلب یہ ہے کہ افغانستان میں خواتین کی زندگیوں کو مشکلات میں ڈالنا۔
طالبان نے اپنے حالیہ تبدیلی کے بعد اپنی نرم مزاجی سے دنیا کو تو کسی حد تک قائل کر لیا مگر اس خاتون کو ابھی تک قائل کرنے میں ناکام رہے ہیں جس کا مشن خواتین کو تعلیم دینا ہے اب یہ خود کس قدر تعلیم یافتہ ہیں یا یہ دنیا کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتی ہے ان کے اس حالیہ بیان سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے
ملالہ یوسف زئی جو کہ سوات پاکستان سے تعلق رکھتی تھیں اور ان کی خود کی افسانوی کردار اپنی زندگی ہے اس کے باوجود نوبل انعام یافتہ قرار پاتی ہیں اور پھر وہ یورپ میں صرف جا کے رہائش پذیر ہوتی ہیں بلکہ یورپ کے دل میں بسنے لگتی ہیں ملالہ یوسف زئی نہ صرف نوبل انعام یافتہ ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ اقوام متحدہ کے تعلیم مشین اور تعلیم خصوصا خواتین اور بچیوں کے مشن پر عمل پیرا ہیں اس کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کی جانب سے اس خاتون کے نام سے ملالہ فنڈ قائم ہو چکا ہے
اس خاتون کو نہ صرف یورپین ممالک سپورٹ کر رہے ہیں بلکہ دنیا کے دیگر ممالک بھی اس میں فنڈریزنگ میں حصہ لیتے ہیں اس فنڈ کا مقصد دنیا میں لڑکیوں کو تعلیم سے آشنا کرنا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ خواتین کے حقوق کے لیے جاری مہمات پر خرچ کرنا ہے
افغانستان میں حالیہ تبدیلی کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ کابل میں خواتین آزادانہ گھوم پھر رہی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کے سکول کھل چکے ہیں کالجز اور یونیورسٹیاں بھی کھلی ہے خواتین بازاروں میں جابجا دکھائی دیتی ہیں اور آزادانہ شاپنگ اور دیگر ضروریات زندگی سے متعلق اپنی انجام دہی کر رہی ہیں لیکن اس سب کے باوجود ہے یہ میں بھی دیکھتے ہیں کہ خواتین اسپتالوں میں اسٹاف کی صورت اپنے کام کر رہی ہیں پھر بھی ملالہ ایسا کیوں کہہ رہی ہیں ملالہ ایسا کیوں سوچ رہی یہ سوال بہرحال اپنی جگہ پر موجود ہے
کیونکہ طالبان نے نہ صرف خواتین سے متعلق بیان میںیہ کہا ہے کہ وہ خواتین کو آزادانہ زندگی گزارنے کا موقع دیں گے اور پھر انہوں نے اعتراف کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ 90 کی دہائی کی طرح ہم خواتین پر بے جا پابندیاں عائد نہیں کریں گے لیکن اس سب کے باوجود طالبان کے نرم مزاجی اور معتدل مزاج کو دنیا تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ آئے روز نہ صرف یورپین ممالک میں سے کوئی نہ کوئی حکمران بلکہ یورپ کے در پردہ عزائم کو تقویت دینے والے ایسے لوگ بھی اس کے متعلق بات کرتے دکھائی دیتے ہیں
طالبان نے اس کے باوجود یہ اظہار کیا ہے کہ وہ خواتین آزادی سے جہاں جہاں وہ جس طرح بھی کام کر رہی ہیں شریعت کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے آزادی دیں گے اور ان کو تحفظ فراہم کریں گے طالبان کا یہ بھی کہنا ہے کہ خواتین کو جس قدر تحفظ اور آزادی اسلام میں ہے کسی دوسرے مذہب میں اس کا تصور بھی نہیں ہے طالبان نے یہ اس بات کا اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ خواتین کو تحفظ دینا ہماری ذمہ داری ہے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ شریعت نے ہم پر یہ فرض عائد کیا ہے کہ ہم خواتین کا تحفظ یقینی بنائیں ان کی آزادانہ اور شریعت کے تحت زندگی کو ممکن بنائیں البتہ اس سب کے باوجود نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی نے اپنے حالیہ بیان میں دنیا کو خبردار کیا ہے کہ وہ طالبان کے رحم پر کرم پر افغان خواتین کو نہ چھوڑیں ملالہ یوسف زئی نے اس تشویش کا اظہار کیا ہے کہ اگر طالبان نے ماضی کی طرح خواتین پر ظلم کیا ؕ۔

Leave a Comment

x