افغانستان میں پھر لاشوں کو سرعام لٹکا دیا گیا

تفصیلات کے مطابق افغانستان کے صوبے ہرات میں لاشوں کو سرعام لٹکا دیا گیا ہے۔غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق جن لاشوں کو ہرات میں لٹکایا گیا ہے وہ اغوا برائے تاوان جیسے جرائم میں ملوث ہیں ان چار افراد نے سنیچر سے ایک باپ اور اس کے بیٹے کو اغوا کیا اور پھر اس کے گھر والوں سےاس کے رہائی کے بدلے میں رقم کا مطالبہ کیا ان چار افراد نے جس تاجر کو اغوا کیا اور اس کے بیٹے کو اغوا کیا اور تاوان کا مطالبہ کیا تو پھر یہ مقدمہ طالبان کی عدالت میں پیش ہوا ، اور پھر ان کوگرفتار کرنے کے دوران میں طالبان کا کہنا تھا کہ انہوں نے مقابلہ کیا اور حملہ آور ہوئے جس کی وجہ سے یہ چاروں ہلاک ہوئے اور پھر ان کی لاشوں کو شہر کے چوک میں لایا گیا اور یوں ہر ایک لاش کو شہر کے مختلف چوکوں میں لٹکا دیا گیا اور ان کی لاشوں کے اوپر ایک پرچہ لگا دیا گیا جس پر لکھا تھا کہ اغوا کرنے والوں کو یہی سزا دی جائے گی۔


یہ اس وقت واقعہ رونما ہوا ہے کہ جب اس سے قبل ایک دن کابل افغانستان میں طالبان کے جیل خانہ جات کے سربراہ ملا نورالدین ترابی نے کہا تھا کہ اگر ماضی کی طرح سرعام سزائیں دی جائیں گی تو ہی افغانستان میں امن قائم ہوگا انہوں نے ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں ماضی میں جب طالبان کی حکومت تھی تو امن اس لیے قائم تھا کیونکہ شریعت کے مطابق سزائیں دی جاتی تھیں انہوں نے مزید کہا کہ قتل کے بدلے میں قتل چوری کے بدلے میں ہاتھ کاٹنا اور زنا کے بدلے میں کوڑے لگانا اور اسی طرح سے شادی شدہ زنا کرنے والوں کو سنگسار کرنے جیسی سزاؤں پر عمل درآمد کیا جانا بہت ضروری ہے اور اس پر کبھی بھی افغانستان میں کمپرومائز نہیں کیا جائے گا ان کا مزید کہنا تھا دنیا اس کے متبادل ہمارے اوپر جتنا مرضی پریشر ڈالے لیکن ہم افغانستان میں امن کے لئے جو بھی ضروری ہوا ہم وہ کر گزریں گے اس کے لئے ہم کسی کا دباؤ برداشت نہیں کریں گے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ سزائیں اس لئے دی جاتی ہیں تاکہ دوسرے اس سے عبرت پکڑیںاور عبرت پکڑنے سے ایک معاشرے میں ڈر اور خوف کی فضا قائم ہوتی ہے لیکن وہ ڈر اور خوف صرف اور صرف ان کے لئے ہے جو ظلم کرتے ہیں جو معاشرے میں بد امنی اور فساد پھیلاتے ہیں یہ خوف ان کے لئے ہے۔


اسی طرح سے اگر یورپ میں اور دیگر ممالک اگر کسی قسم کے خوف میں مبتلا ہیں تو وہ بھی ہم سمجھتے ہیں کہ وہ در پردہ افغانستان میں امن نہیں چاہتے ہم افغانستان میں امن کے لئے جو بھی ضروری ہو ا کریں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم افغانستان میں جو سزائیں دیں گے وہ سرعام دیں گے اس کی ویڈیوز بنانے والے کسی فرد کی روک ٹوک نہیں کریں گے بلکہ ہم تو چاہتے ہی یہی ہیں کہ جو بھی سزا دی جائے وہ سرعام ہو اگر ویڈیوز بنائی جائیگی اور اس کو آگے شیئر کیا جائے گا تو اس سے ہمارا کام آسان ہوگا کیونکہ ہم دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیںکہ افغانستان کی عوام کا امن جس قدر ہم چاہتے ہیں وہ شاید کوئی اور نہیں چاہتا اور جس قدر افغانستان کے خیر خواہ اس وقت کی طالبان حکومت ہے وہ کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا۔


اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ افغانستان کے تمام لوگوں کو پیغام دیتے ہیں کہ وہ اس حکومت کی کامیابی کے لیے نہ صرف دعا گو ہوں بلکہ اس کی سپورٹ بھی کریں اور افغانستان میں امن لانے کے لئے اس کی تعمیر و ترقی میں کردار ادا کریں واضح رہے کہ نوے کی دہائی میں طالبان سے جس طرح سزائیں دیتے تھے جس کی وجہ سے یورپ اور دیگر ممالک ان کے خلاف تھے اور ان کے خلاف اقدامات بھی کرتے رہتے تھے آواز اٹھاتے تھے کہ طالبان بڑے سخت ہیں اور انسانیت سوز سزائیں دے رہے ہیں۔ امریکا نے حالیہ اس سزا پر اپنے رد عمل کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ کسی طور بھی قابل قبول نہیں ہے کہ لوگوں کو سرعام چوکوں اور چوراہوں پر لٹکا دیا جائے ان کا کہنا ہے تو یہ انسانیت کی تذلیل یہ مہذب معاشرے کی مثال نہیں ہے۔


جبکہ دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو افغانستان ہی نہیں بلکہ پاکستان کی بیشتر عوام طالبان کے اس اقدام کی نہ صرف حمایت کرتی ہے بلکہ وہ چاہتی ہے کہ اس کا پرچار کیا جانا چاہئے اور یہ سزا یوں ہی سر عام دی جانی چاہیے تاکہ دنیا میں امن قائم ہو پاکستان میں بھی بلکہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اسی طرح سے سزائیں دی جائیں تاکہ مقدمات کے لٹکانے میں اور پھر ظالموں کو سرعام نشان عبرت بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی جائے طالبان نے اس سے قبل بھی اعلان کیا تھا کہ ایک ہفتے کے اندر اندر مقدمات کی پیروی کرتے ہوئے اور پھر ان کو منطقی انجام پر پہنچاکرسزائیں دی جائیں گی۔

Leave a Comment

x